ماہنامہ
دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 94 ، رجب- شعبان 1431 ہجری
مطابق جولائی 2010 ء
ہندوستانی مسلمانوں کے مابین اتحاد کیسے ممکن ہے
از: مولانا محمد فیاض قاسمی سمستی پوری
وحدانیت کا
پیغام انسانیت کے نام
یہ ایک
حقیقت ہے کہ آفتاب اسلام کی ضیاپاشیوں سے قبل سرزمین
عرب پر جہالت و تاریکی چھائی ہوئی تھی اور نہ صرف
عرب بلکہ دنیا کا گوشہ گوشہ تاریک اور چپہ چپہ تیرہ وتار ہورہا
تھا۔ دنیا حق پرستی کے نام سے نا آشنا ہوچکی تھی،
کرئہ ارض کی تمام آبادی غیرالٰہی عبودیت و
پرستش کی زنجیروں سے جکڑی ہوئی تھی، تہذیب وتمدن
کا چراغ گل، فلسفہ وحکمت کا بازار سرد تھا، کائنات عالم کے صفحات کفر وشرک، فسق و
فجور کے نقشہائے باطل سے ڈھکے ہوئے تھے، معمورئہ عالم کے اوراق رہزنی و سفاکی،
ظلم وتعدی، افتراق و انتشار، قبیلہ پرستی اور باہمی تنازع
کے گھناؤنے دھبوں سے داغدار ہورہے تھے، ”ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت
ایدی الناس“ خشکی اور تری میں انسانوں کی
بداعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیلا ہوا تھا۔
ایسی
حالت اور ایسے وقت میں جب کہ روح انسانی پژمردہ ہورہی تھی،
انسانیت تڑپ رہی تھی، کائنات کا ذرہ ذرہ تشنہ کام ہورہا تھا؛
بطحا کی خاک سے ایک یتیم (فداہ ابی وامی)
اٹھا اور عالم کے لیے رحمت بن کر نمودار ہوا۔
دنیا توحید
کی نعمت سے محروم ہوچکی تھی، عیسائی تین
خداؤں کے قائل ہوکر دنیا کو گمراہی کے جہنم میں دھکیل رہے
تھے۔ ایران میں آتش کدہ معبود بنا ہوا تھا اور یَزداں
واَہرمن دو خدا مانے جاتے تھے۔ ہندوستان میں ہندوؤں نے مظاہرقدرت کو
خدا بنا رکھاتھا اور ۳۳ کروڑ
دیوتا ان کے قلوب پر حکمرانی کررہے تھے۔ غرض دنیا کے گوشہ
گوشہ سے توحید الٰہی مفقود ہوچکی تھی اور شرک وکفر
کا دور دورہ تھا۔ کلمہ کے معلم امی نے آکر سب سے پہلے دنیا کے
آگے توحید کا گلدستہ پیش کیا اور لاالٰہ الا اللہ کا پیغام
شیریں ہر انسان کے کانوں تک پہنچادیا۔ ایک ہی
پکار میں مدتوں کے مدہوشِ غفلت چونک اٹھے، برسوں کی سرمست خواب قومیں
بیدار ہوگئیں۔
دنیا کی
اصلاح کے لیے انسانی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ صلى الله
عليه وسلم ایسا پیغام لے کر آئے جو مذہب کی روح، خداشناسی
کی شرط اوّل اور انسانی شرافت کی بنیاد ہے وہ توحید
الوہیت اور ربوبیت تھی جس کی جامع حقیقت صرف ایک
کلمہ لا الٰہ الا اللہ میں پنہاں ہے۔
عالمگیر
انسانی برادری کا قیام
دوسری چیز
جو آپ نے انسانیت کا درجہ بلند کرنے کے لیے پیش کی وہ
عالمگیر انسانی برادری کا قیام اور ذات پات کی تفریقوں،
رنگ و روپ کے امتیازوں اور نسل وقوم کے اختلافات کا مٹانا تھا۔ پیغمبر
اسلام ہی دنیا میں وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے اعلیٰ
و ادنی کا تفرقہ مٹایا، کالوں اور گوروں کا امتیاز فنا کیا،
امیر وغریب کی حد بندیاں توڑیں، وطنی اور
قبائلی فخر وغرور کا سرکچلا اور تمام بنی نوع انسان کو بلا کسی
تفریق وامتیاز کے ایک ہی صف میں لاکھڑا کردیا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
خودپیغمبر
اسلام کی عملی زندگی یہ تھی کہ آپ صلى الله عليه
وسلم کے دربار میں امیروغریب، دولت مند و فاقہ کش سب ہی
تھے؛ آپ کا برتاؤ سب کے ساتھ یکساں تھا۔ آپ کی بارگاہ میں
اگر ایک طرف ابوبکررضى الله عنه و عثمانرضى الله عنه جیسے امراء موجود
تھے تو دوسری طرف اسی شان وحیثیت سے ابوہریرہ رضى
الله عنه و ابوذررضى الله عنه جیسے مفلس اور بلال رضى الله عنه و سلمانرضى
الله عنه جیسے غلام بھی موجود تھے۔ کبھی ایسا نہیں
ہوا کہ آپ نے مالداروں کو غرباء پر ترجیح دی ہو یا سرمایہ
داروں کو کسی خاص رعایت سے نوازا ہو۔
آپ صلى الله عليه
وسلم حضرت بلال رضى الله عنه کو دیکھ کر فرماتے ”تو میری آنکھوں
کی ٹھنڈک ہے“ آپ صلى الله عليه وسلم کے دربار میں حضرت بلال رضى الله
عنه نے وہ مرتبہ حاصل کیا کہ انصاریوں نے برضا ورغبت اپنی بیوی
ان کو بیاہ دی۔ اور جب ان کا انتقال ہوتا ہے تو حضرت عمر ابن
الخطاب رضى الله عنه جیسے خوددار انسان جن کی سطوت وہیبت سے کسریٰ
وقیصر کے اندام پر لرزہ تھا ”الیوم مات سیدنا“ افسوس آج ہمارا
آقا ہم سے جدا ہوگیا، کہہ کر روتے ہیں۔
آنحضرت صلى الله
عليه وسلم اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ رضى الله عنه کو اس قدر پیار
کرتے تھے کہ لوگ ان کو ”زید بن محمد“ کہنے لگے۔ ان کے بیٹے
اسامہ بن زید رضى الله عنه کے ساتھ اتنی محبت کرتے تھے کہ حضرت امام
حسن رضى الله عنه اور اسامہ بن زید رضى الله عنه دونوں کو آپ صلى الله عليه وسلم نے آغوش میں لے کر
فرمایا: ”خدا یا میں ان سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے
محبت کر“ (بخاری کتاب المناقب) اور صرف اظہار محبت وہمدردی ہی
نہیں بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے
حضرت زید بن حارثہ کو آزاد کرکے ان کے ساتھ اپنی پھوپھی زاد بہن
حضرت زینب رضى الله تعالى عنها کو بیاہ کر دنیا کے لیے ایک
بے نظیر مثال قائم کردی۔ (بیان القرآن) اسامہ بن زید
رضى الله عنه کو اس فوج کی سرداری عطا کی جس میں حضرت عمر
رضى الله عنه جیسے حسب ونسب والے افراد شامل تھے۔ فارس نژاد سلمان رضى
الله عنه کے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے ”سلمان منا اہل البیت“
حتی کہ مساوات کے عملی پیغمبر صلى الله عليه وسلم نے عمل کے
ساتھ ساتھ اصولاً بھی یہ فرمادیا ”لا فضل لعربی علی
عجمی ولا لِاَحمر علی اسود کلکم من آدم وآدم من تراب“ (روح المعانی)
کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت نہیں اور گورے
کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، بلکہ تم سب ایک ہو، کیونکہ
تم آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے۔
نبی
اکرم صلى الله عليه وسلم کے پردہ فرمانے
کے بعد بھی یہ چیزیں باقی رہیں۔ خلفاء
راشدین کا عہد اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے کہ انھوں نے اپنی
محکوم اقوام کے ساتھ کس طرح رواداری، مساوات اور بھائی چارگی کا
ثبوت دیا۔ حضرت عمر رضى الله عنه نے ایک معزز عہدہ دار کو محض
اس خطا میں معزول کردیا تھا کہ انھوں نے ایک ذمی کے
معاملہ میں کچھ زیادتی کی تھی۔
قومیت کی
تعمیر کے لیے نسلی امتیاز کا خاتمہ
چونکہ قومیت
کی تعمیر اور اتحاد کے فروغ کے لیے سب سے پہلے نسلی امتیاز
کا مٹانا ضروری تھا اس لیے آنحضرت
صلى الله عليه وسلم نے اسی طرف توجہ کی اور خود اپنے خاندان میں
غیر قریشیوں کو جذب کیا۔ اور آپ صلى الله عليه وسلم کے صحابہ، اہل بیت
اور خلفاء اسلام نے بھی اس پر عمل کیا اور رومی، ایرانی
اور وحشی غلاموں اور کنیزوں کو نہ صرف معاشرانہ حقوق دیے بلکہ
ان کو اپنے خاندان میں شامل کرکے ان کی عزت افزائی کی۔
عربی زبان میں
مولد اس کو کہتے ہیں جس کے ماں اور باپ دو مختلف نسل سے ہوں۔ خاندان
عباسیہ کے بعض خلفاء شہزادے اور شہزادیاں انھیں مولدات کے بطن
سے تھیں۔ خلیفہ منصور نے اپنی لونڈی محیاة -
جو غالبا خلیفہ مہدی کی ماں تھیں - کو شکلہ نامی ایک
مولدہ عطا کی تھی، محیاة نے اس کی پرورش کی اور اس
کو طائف بھیج دیا، وہیں اس نے نشوونما پائی اور فصاحت میں
کاملہ ہوگئی، جوان ہوئی تو اپنی ملکہ محیاة کے پاس آگئی۔
خلیفہ مہدی نے دیکھا تو اس کو شکلہ بہت پسند آئی، اس نے
اپنی ماں سے اس کو مانگ لیا۔ اس سے ابراہیم بن مہدی
پیدا ہوا۔ ابراہیم بن مہدی آج عباسی خلیفہ کا
چشم وچراغ سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح بصیص ایک مولدہ لونڈی
تھی، خلیفہ مہدی نے اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں
اس کو سترہ ہزار دینار میں خریدا تھا۔اس سے علیہ
بنت مہدی پیدا ہوئیں۔ اسی طرح متیم ہاشمیہ
بصرہ کی مولدہ تھی اور عہد عباسیہ کی مشہور مغنیہ
عریب کی ملک میں تھی۔ خود عریب کے متعلق صاحب
الاغانی کہتے ہیں کہ وہ جعفر بن یحییٰ برمکی
کی بیٹی تھی۔ بہرحال عریب نے اپنی لونڈی
متیم ہاشمیہ کو علی بن ہشام کے ہاتھ بیس ہزار درہم میں
فروخت کردیا۔ اس کے متعلق صاحب الاغانی کا بیان ہے: وخطبت
عندہ خطوة شدیدة وتقدمت عندہ علی جواریہ اجمع وہی ام ولدة
کلہم، علی بن ہشام کی وہ بہت منظور نظر اور اس کی ساری
لونڈیوں کی ملکہ او رکل اولاد کی ماں بن گئی۔
الغرض خاندان عباسیہ
میں اسی طرح کثیر تعداد میں عرب کی مولدات جذب ہوئیں۔
یہ کیا تھا؟ محمد عربی
صلى الله عليه وسلم کی انسانی ہمدردی تھی جس نے اس
کو نسبی عصبیت سے نجات دلائی۔ اور حال یہ ہوگیا
کہ:
چوں بندئہ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
اگر ہادیٴ
برحق کی تعلیم میں وطنیت کو کوئی اصولی درجہ
دیا جاتا تو ناممکن تھا کہ روم، فارس، حبشہ وقرن کے رہنے والے عرب کی
زمین میں مدارج حاصل کرسکتے۔ یہی وجہ تھی کہ
ہر مسلمان جدھر رخ کرتا چل کھڑا ہوتا اور اس نعرہ کے ساتھ ”ہر ملک ملکِ ماست کہ
ملک خدائے ماست“ خدا کی زمین پر ڈیرے ڈال دیتا اور اسے
اپنا وطن بنالیتا۔
موجودہ اخلاقی
بے مائیگی اور انتشار و افتراق کا اجمالی نقشہ
مگر سوال یہ
ہے کہ ان روایات پارینہ کو صرف کبھی کبھی تحریری
اور تقریری طور پر دہرایا جائے یا مسلمانوں پر یہ
بھی ضروری ہے کہ اس کا عملی نمونہ پیش کریں۔
ہم اپنے کردار پر غور کرتے ہیں تو ہمیں شرم آتی ہے۔ میرا
تو خیال ہے کہ رسول اللہ صلى الله
عليه وسلم کے اخلاق و بزرگی و رحم وکرم کی ترجمانی کے ساتھ یہ
بھی ضروری ہے کہ اپنی موجودہ اخلاقی بے مائیگی
اور قومی وملی انتشار و افتراق کا ایک اجمالی نقشہ پیش
کیا جائے۔
سرزمین ایران
کا ایک رنگین نوا شاعر ہندوستان میں وارد ہوتا ہے اور یہاں
کے غزالاں رعنا کو دیکھ کر اس کی جمالی امنگیں پھر ایک
بار کروٹ لیتی ہیں اورآخر کار وہ انتہائی خواہش ورغبت میں
ایک کو دل دے بیٹھتا ہے۔ محبت کی سختیاں جھیل
رہا ہے، اس کی افتادگی وسپردگی بے اختیاری چیزیں
بن گئی ہیں اور ایک ایسے مجبور انسان کی طرح جس پر
ابھی سحر نے ایسا اثر نہ کیا ہو کہ وہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے،
اپنے سوگوارانہ انداز میں کہہ بیٹھتا ہے:
بلائے دیدہ ودل راز پے شتا بانم
کسے نگزیدم اے خانما خراب کجا
عرفی کا یہ
شعر ممکن ہے شاعرانہ جھوٹ ہو، ممکن ہے اس نے اپنی عشقیہ بربادی
کا اظہار محض بربنائے تفنن کیا ہو اور وہ دیدہ ودل کسی بلا میں
گرفتار ہونے کے بجائے مستانہ زندگی بسر کررہا ہو؛ لیکن اس حقیقت
سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنی روزانہ کی زندگی
میں کسی ”خانہ خراب“ کے دیدہ ودل کی بلاؤں کا مشاہدہ ضرور
کرتے ہیں، اور صرف یہی نہیں بلکہ ہماری بے حسی
اور بے رحمی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہم زحمت لب کشائی کے لیے
بھی تیار نہیں۔ ایک رومانی انسان ایک
دشت لالہ زار میں پہنچتا ہے اور ان کے اوراق پر خون کی طرح سرخ سرخ
دھبے دیکھ کر دل مسوس لیتا ہے، اس کی حساس طبیعت بہت
متاثر ہوتی ہے اور وہ ایک دل والے انسان کی طرح حزین
اصفہانی کا یہ شعر پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے:
بہ دشت از جلوہ ہائے لالہ داغم تازہ می گردد
کہ یاد از سینہ ہائے دردمنداں می دہد
مارا
عرفی کی
شکوہ سنجی یہ تھی کہ میں ایسی ہستی کے
پیچھے سرگرداں ہورہا ہوں جو میرے دل اور آنکھوں کے لیے ایک
بلا ہے؛ لیکن وائے افسوس کہ ایک پرستار بلا کے ساتھ اتنی بھی
کوئی ہمدردی نہیں کرتا کہ میاں کہاں جارہے ہو، ذرا ہوش میں
تو آؤ۔ اللہ رے دنیا کا غمگسارانہ انداز۔ اسی کے ساتھ ایک
انسان داغہائے لالہ کو دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے سوختہ جگر
سینوں کا نقشہ پھر جاتا ہے۔ یہ ہے اہل دل کی تڑپ اور وسیع
ہمدردی۔
اب ذرا عرفی
اور حزین کے افکار کو اپنی اجتماعی زندگی پر منطبق کیا
جائے؛ روزانہ ہم اپنے ارد گرد ایسے مناظر دیکھتے ہیں کہ کوئی
بلاؤں میں گرفتار ہے، لیکن ہماری انسانی ہمدردی میں
کوئی تحریک نہیں ہوتی۔ حالانکہ انسانیت اور
انسانی بزرگی کا صحیح معیار انسانیت نواز پیغمبر صلى الله عليه وسلم کی تعلیم کے
بموجب یہ ہے کہ لالہ کے اوراق پر سرخ رنگ کے چھینٹوں کو دیکھ کر
دردمندوں کی سوختہ جگر کی یاد تازہ اور دل میں ایک
ٹیس پیدا ہوجائے۔ کیا ہماری اجتماعی زندگی
میں ایسے مناظر ہیں؟ اس سوال کا جواب لینے کے لیے
ہمیں کسی زیادہ فکر و کاوش اور سعی وطلب سے کام لینے
کی ضرورت نہیں؛ بلکہ ہر شخص اپنے ماحول پر ایک نظر ڈالے۔
شاید اس کی بے حسی اور خود کامیوں نے آج تک اس کو اندھا
بنائے رکھا ہو اور وہ غیر شعوری طور پر وہ سب کررہا ہو جو ایک
انسانیت کا دشمن اور تہذیب و اخلاق کا مخرب ہی کرسکتا ہے۔
ہر انسان ذرا تھوڑی دیر کے لیے غور کرنے کی زحمت گوارہ
کرے کہ مذہب اور اخلاق کے بلند ترین دعوے کے باوجود وہ یکسر لامذہبیت
اور اخلاق کشی کا حامی تو نہیں۔ آپ کے محلہ میں کوئی
بے نوا انسان ہے، آپ نے اپنی بزم نشاط اور مجلس طرب برپا کرنے سے قبل کبھی
یہ خیال فرمایا کہ اس میں صرف انھیں لوگوں کو شرکت
کا حق ہے جن کو آپ نے دعوتی کارڈ بھیجنے کے لائق سمجھا ہے یا
اور بھی خدا کے بندے ہیں جن کی خانہ خرابیاں دل والوں کو
بے چین کردیتی ہیں۔ اگر آپ اپنی عیش
کوش مجلسوں میں یا اپنی پرسرور زندگی کے مواقع پر ان بے
نوا انسانوں کو ٹھکراتے ہیں تو پھر آپ کو کیا حق ہے کہ مذہب کا
اِدِعَا اور مذہبی شان کی نمائش کریں۔ جب کہ مذہب کی
اصل نوع انسانی کی ہمدردی، عالمگیر اخوت اور باہمی
اتحاد وبھائی چارگی ہے۔ کیا مذہب نام ہے ایک خاص
حلقہ میں ربط واخلاص اور شرکت و تعاون کا، کسی خاص عقیدے یا
کسی خاص طبقہ کی عزت واحترام اور کسی محدود حلقے سے تعلق ولگاؤ
کا۔ اگر واقعتا مذہب یہی ہے تو پھر علمبردارانِ مذہب کو معلوم
ہونا چاہیے کہ دنیا ایسے مذہب کے سامنے گردن خم کرنے کے لیے
تیار نہیں۔ اور اگر مذہب نام ہے ایک عالمگیر انسانی
اخوت اور اتحاد واتفاق، ایک وسیع ہمدردی اور بلا امتیاز
فرقہ وطبقہ، ذات برادری، رنگ ووضع، ہر انسان کو انسان سمجھ کر اس سے مخلصانہ
محبت اور رواداری کا، ہر فرد کی خوشی اور غم میں ہمدردانہ
شرکت وتعاون کا؛ تو پھر مدعیان مذہب جنھوں نے اپنے کو خودپرستیوں اور
خود کامیوں میں محبوس کررکھا ہو، اپنے دعووں اور اپنے کردار کا موازنہ
کریں کہ وہ کہاں تک اس پر کھڑے اترتے ہیں۔
اتحاد و افتراق پر
صرف زبانی جمع خرچ
ہمارے ملک میں
قومی اجتماعیت، عالمگیر اخوت اور اتحاد و بھائی چارگی
کی باتیں جتنی زیادہ کی جاتی ہیں شاید
ہی دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہو جہاں اس پر اتنا زور دیا
جاتا ہو۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، ہمارے
رہنما، عوام کو فرقہ پرستی، صوبہ پرستی، زبان پرستی اور تنگ نظری
چھوڑ کر متحد ہونے اور قوم واحد بننے کی تلقین کرتے ملیں گے۔
اگر کوئی اعداد وشمار جمع کرے تو ہمارا اندازہ ہے کہ شاید ہی
کوئی دن ناغہ ہوجاتا ہو جب کوئی چھوٹا یا بڑا لیڈر ملک کے
کسی گوشہ میں عوام کے سامنے اتحاد کی خوبیوں اور انتشار
وعلاقہ پرستی کی برائیوں پر وعظ نہ کہتا ہو۔ صدر جمہوریہ
آنجہانی ڈاکٹر راجندر پرشاد اور وزیراعظم پنڈت نہرو نے بھی
اتحاد کا دم بھرا تھا اور کہا تھا کہ لوگ قومیت کا جذبہ چھوڑدیں،
علاقائیت، صوبہ واریت اور فرقہ واریت ترک کردیں اور آپس میں
اتحاد قائم کریں۔ اور آج بھی راہل گاندھی بہار کے دورے میں
مختلف جگہوں پر نوجوانوں کو اتحاد کی تلقین اور علاقائیت اور
صوبہ واریت سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں؛ اتنا ہی
نہیں بلکہ یہاں تک بھی کہہ ڈالا کہ ”آپ لوگ مجھے بھی بہاری
ہی سمجھیں“ (قومی تنظیم پٹنہ، ۲/۲/۲۰۱۰/) ایک طرف یہ
وعظ و تلقین ہے، دوسری طرف انتشار، خودغرضی، تنگ نظری اور
تعصب کے عملی مظاہرے ہیں جن کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔
اس بات کی یقین
دہانی کے لیے کہ ملک کے اندر ہر طرف خود غرضی، تعصب وتنگ نظری،
کرپشن اور فرقہ پرستی کا دور دورہ ہے، واقعات و شواہد پیش کرنے اور
دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ شاید ہی کوئی
ہندوستانی ہو جس کا یہ اپنا ذاتی تجربہ نہ ہو۔
کوئی بستی
کوئی قریہ، کوئی شہر اور قصبہ نہیں جہاں مذہب، ذات پات،
دولت، سماجی رتبہ وحیثیت، زبان اور طرح طرح کی دیواروں
نے انسانوں کو بانٹ نہ رکھا ہو۔ اور یہ بانٹنا ایسا نہیں
جیسا کہ شہد کی مکھی کے چھتہ میں ہوتا ہے کہ ہر ایک
فرض شناسی کے ساتھ اپنا اپنا کام کرتا، سماجی بھلائی میں
اپنی حصہ ادا کرتا اور فوائد سے خود بھی بہرہ مند ہوتا ہے؛ بلکہ یہ
تقسیم دلوں کی جدائی سے شروع ہوتی ہے۔ ہر ایک
فرد اور اس فرد کے ساتھ رہنے سہنے والا گروہ دوسرے افراد اور گروہوں کو نیچا
دکھانے اور اس پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر گروہ کے واجبی
وواقعی حقوق ادا کرنا تو کجا، ہر ایسے موقع کی تلاش میں
رہتا ہے کہ دوسروں کے حقوق غصب کرلے۔
جب سے ملک میں
نئی سیاست وجدیدسیاسی نظام کا کاروبار شروع ہوا ہے،
سیاسی پارٹیاں بنی ہیں اس سے انتشار اور مفاد پرستی
میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ ان پارٹیوں نے باہمی تعصب
وعناد کو ختم کرانے کی بجائے ہمیشہ ان کا استحصال کیا ہے۔
انتشار وافتراق کے
اسباب اور اس کے خاتمہ کی امکانی صورت
ملک میں کوئی
ایسا دردمند دل نہیں جو اس صورت حال سے دکھی نہ ہو، لیکن
افسوس یہ ہے کہ باربار طوطوں کی طرح اتحاد ویک جہتی کا
سبق رٹنے رٹانے کے سوا کوئی غور کرکے یہ نہیں بتلاتا کہ اس
انتشار اور کش مکش کا اصل سبب کیا ہے اور یہ کیسے ختم ہوگا۔
اتحاد پیدا
کرنے کے لیے دو قسم کی بنیادیں ہوسکتی ہیں: (۱) مثبت (۲) منفی،
منفی بنیادوں میں کسی دوسری قوم یا گروہ کے
خلاف نفرت، اس پر جارحانہ حملہ، اسے غلام بنانے کی مہم، یا بیرونی
حملہ آور دشمن سے مدافعت اور ظالم وجابر حکمراں کے خلاف بغاوت شامل ہیں۔
یعنی کسی مشترک حقیقی یا فرضی دشمن کے
خلاف صف آرائی اور مشترک خطرہ سے مدافعت ایک ایسی بنیاد
ہے جس پر ایک ملک یا بستی کے رہنے والے متحد ہوسکتے ہیں۔
مثبت بنیاد
اس قسم کی ہوسکتی ہے کہ سب کا بنیادی مقصد زندگی ایک
ہو، سب اس مقصد زندگی کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کے
تعاون کے محتاج ہوں، یہ مثبت مقصد زندگی مہمات سَر کرنے کے لیے
مشترکہ کوششیں چاہتا ہو، اور یہ مقصد زندگی بھی ایسا
ہو کہ ہر ہر فرد کا مقصد ومفاد ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے پورے
سماج کا مجموعی مقصد ومفاد بن جائے۔
بلا شبہ اوّل
الذکر یعنی منفی بنیادوں پر بھی قومیں متحد ہوئی
ہیں اور اس اتحاد واجتماع نے بڑے حیرت انگیز وجرأت آمیز
کارنامے انجام دیے ہیں، بعض مواقع پر بحیثیت مجموعی
ان سے انسانیت کو فائدہ بھی پہنچا ہے۔ اسی منفی بنیاد
پر گذشتہ صدی میں ہندوستان بھی ایک متحد ومجتمع قوم کی
شکل میں بیرونی طاقت سے نبرد آزما ہوا ہے۔ جنگ آزادی
لڑی اور فتح یاب ہوا۔ ایک مشترک دشمن (انگریز) کے
خلاف لڑنے کا جذبہ ہی تو تھا جس نے شمال، جنوب، مشرق، مغرب، مسلم وغیرمسلم
اورامیر وغریب سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔
اور اس اتحاد کا فائدہ (اب برائے نام ہی سہی) سیاسی آزادی
کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
لیکن ہر جگہ
اور ہر زمانہ میں اتحاد واشتراک کی یہ منفی بنیاد دیرپا
اور گہری ثابت نہیں ہوا کرتی۔ مشترک دشمن، بیرونی
حملہ آور یا اس جیسا کوئی دوسرا مشترک خطرہ لوگوں کو بھیڑ
کی طرح جمع کردیتا ہے، لیکن خطرہ کی گھڑی ٹلتے ہی
بلکہ اکثر صورتوں میں خطرہ کی شدت کا احساس کم ہوتے ہی اشتراک و
اتحاد کی ساری بنیاد متزلزل ہوجاتی ہے اور لوگ پہلے کی
طرح ٹولیوں اور ٹکڑیوں میں بٹ جاتے اور باہم دست و گریباں
ہوجاتے ہیں۔
کیا اپنے
ملک کا حال اس سے جدا ہے، کیا وہ اتحاد واشتراک جو گذشتہ صدی تک ہمیں
نظر آرہا تھا اور جس کی وجہ سے ہندوستانی قوم ایک سیسہ
پلائی ہوئی دیوار معلوم ہورہی تھی، اب سیمیاکی
سی نمود کے سوا اور کچھ معلوم ہوتی ہے؟ بیرونی دشمن کے
جاتے ہی رابطہ کی تمام کڑیاں بھی ازخود ٹوٹ گئیں۔
یہ قریب
ترین مثال ہے جو اتحاد کی منفی بنیاد کے بودے وناپائدار
ہونے کے بارے میں ہمارے سامنے ہے۔ ایسی مثالیں ہر
قوم اور ہر زمانہ کی تاریخ سے مل جائیں گی۔ اس کے
بالمقابل ایک ایسے اتحاد وتعاون اور باہمی میل ومحبت کا
واقعہ سامنے رکھا جائے جو ۱۴/ سو تیس
سال پہلے عرب میں وجود میںآ یا۔
راہِ اتحاد کی
حقیقی اور پائدار صورت
کیا پیغمبر
اسلام حضرت محمد مصطفی صلى الله
عليه وسلم کی نبوت سے پہلے عرب سوسائٹی میں کسی قسم کے بین
الاقوامی اتحاد، قومیت اور باہمی اشتراک و تعاون کا تصور پایا
جاتا تھا۔ عرب کی تاریخ کا معمولی مبتدی بھی
جانتا ہے کہ نہ ایسا تصور وہاں موجود تھا اور نہ اس پر وہاں عمل ہوتا تھا۔
ہمارے زمانہ میں کم سے کم اتنا ضرور ہوا ہے کہ قبائل و بستیاں ہی
نہیں بلکہ ساری انسانیت کے اتحاد اور تعاون کے تصورات بہت عام
ہوگئے ہیں، ان تصورات کو کافی تقویت ملی ہے اور اس نصب
العین کی طرف ہر ملک کے لوگ قدم بڑھانا بھی چاہتے ہیں اور
اس کا عملی ثبوت بھی کسی نہ کسی شکل میں پیش
کررہے ہیں۔
اس کے برخلاف اس
زمانہ کی عرب سوسائٹی عمل تو کجااس قسم کے تصورات سے بھی بالکل
ناواقف تھی۔ سوسائٹی قبائل میں بٹی ہوئی اور
اجتماعی زندگی کی اوّل وآخر اینٹ قبیلہ تھی۔
لیکن ایسے
ناگفتہ بہ حالات اور سماجی ماحول میں اللہ پاک نے ایک بندے کو
اصلاح حال کے لیے بھیجا تو اس ذات کریم نے اپنی ۲۳/ سالہ جدوجہد کے طویل دور میں
ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ ایے میری
قوم کے لوگ تم متحد ہوجاؤ کیونکہ اتحاد ہی قوت ہے۔ یا یہ
کہ اے میری قوم کے لوگ تم ٹولیوں، ٹکڑیوں اور قبیلوں
میں بٹے رہنے کی بجائے اپنے اندر جذباتی ہم آہنگی پیدا
کرو، قومیت کا شعور بیدار کرو اور ایک مضبوط قوم بن کر دنیا
کی متمدن وترقی یافتہ (ایران وروم) کی صف میں
شامل ہوجاؤ۔ اور اس ذات کریم نے کسی چین، کسی روس یا
کسی پاکستان اور امریکہ کا خوف و خطرہ بھی اپنی قوم کو نہیں
دلایا؛ بلکہ جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا کہ ایک اور صرف ایک
خدائے برتر کے بندے بن جاؤ، اس کے بعد کہا کہ تم سب ایک آدم کی اولاد
ہو، کسی کو کسی پر فوقیت اور برتری حاصل نہیں، الاّ
یہ کہ وہ تقویٰ والا ہو۔ نسل، رنگ، قبیلہ اور زبان
کا جو کچھ اختلاف ہے وہ محض اس لیے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
اس کے بعد بتلایا کہ ایک حقیقی خدا کے بندے بن کر زندگی
گزارنے کا طریقہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر مرحلہ اور موڑ پر اور ہر
آن تم اپنے نفس کے ساتھ اور دوسرے بندگانِ خدا کے ساتھ عدل وانصاف کا برتاؤ کرو۔
اور یہ کہ تم جو بھی ظلم وزیادتی کروگے خواہ وہ اپنے ساتھ
ہو یا حقیرسے حقیر نظر آنے والے بندئہ خدا کے ساتھ، اس کے لیے
تمھیں مرنے کے بعد جواب دینا ہوگا۔ اگر تمہارے گناہ زیادہ
ہوئے تو تم عذاب کے مستحق ہوگے، اور اگر تمہارے کاموں سے راضی ہوکر اللہ بخش
دے تو تمہارا ٹھکانہ دائمی راحت ہوگا۔
یہی سیدھی
سادی اورہر کس وناکس کی سمجھ میں آجانے والی چند باتوں نے
جو اثر کیا وہ تاریخ انسانیت کا روشن ترین باب بن کر ہماری
عبرت اور سبق کے لیے محفوظ ہے۔
کیا کوئی
انکار کرسکتا ہے کہ اس تعلیم نے جب اپنا اثر دکھلایا تو چشم فلک نے وہ
اتحاد، وہ وصل اور باہمی میل محبت کا وہ سماں دیکھا جس کی
نظیر مشکل ہے۔ کیا کوئی اس سے انکار کرسکتا ہے کہ تمام
مصنوعی امتیازات مٹ گئے، بندھن ٹوٹ گئے اور انسان کی تکریم
وعزت، بڑائی چھوٹائی کا معیار صرف اس کے اخلاق اور اس کے تقویٰ
والی ذاتی اوصاف کے سوا کچھ اور نہیں رہا۔ جو ساری
زندگی باہمی شکستگی میں مبتلا رہے جب اسلام نے انھیں
جوڑ دیا تو وہی ساری دنیا کو انسانیت کے اتحاد کا پیغام
دینے والے بن گئے۔
افسوس! کہ ہمارے
ملک میں کوئی اتحاد کی ان یقینی بنیادوں
کو پیش نہیں کررہا ہے۔ حتی کہ مسلمان، جس کا خدا ایک،
رسول ایک، قرآن ایک، ایمان ایک، حرم پاک بھی ایک
ہے، وہ بھی ان سارے حقائق اور تعلیمات سے الگ کوئی اور دوسری
راہِ اتحاد تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔
***